پہچان اپنی مٹائے پھرتا ہے
ہر شخص چہرہ چھپائے پھرتا ہے
ہے حسن اس کا کہ جادو ہے کوئی
ہر ایک کا دل چرائے پھرتا ہے
جو دیکھتا ہے اسی کا ہوتا ہے
وہ حشر سر پہ اٹھائے پھرتا ہے
یہ عشق بھی ہے عجب اس دنیا میں
یہ ناچ سب کو نچائے پھرتا ہے
دشت و مکاں ہیں کیا اس کے آگے
فلک و زمیں بھی ہلائے پھرتا ہے
اے عشق تیرے کیا کہنے، مجھ سے
مُردوں کو بھی تُو جگائے پھرتا ہے
ہے آج تیرے کیا جی میں آئی
رخ سے تو پردہ ہٹائے پھرتا ہے
یہ حوصلہ ہے مرے ہی تو دل کا
جو بوجھ تیرا اٹھائے پھرتا ہے
ہاں! درمیاں کن فکاں کے بھی خالد
وہ ایک دنیا بسائے پھرتا ہے