پیار سے مسکرانا غضب ہوگیا
بات دل کی بتانا غضب ہوگیا
پیار کو آ ز مانا غضب ہوگیا
بے وجہ گھر سجانا غضب ہوگیا
ہوئی رسوائی ہے لوگوں کے سامنے
پیار سے ہی بلاتا غضب ہوگیا
سہ جدائی نہیں دل یہ پاتا مرا
دل سبھی سے لگا غضب ہوگیا
روز کہتا ہے اپنی سناؤ غزل
غزلیں اپنی سنانا غضب ہوگیا
لمس چھو نے لگا ہے مرے بار بار
دست الفت بڑھانا غضب ہوگیا
بھول پایا نہیں میں ابھی تک اسے
نظریں ان سے ملانا غضب ہوگیا
دشمنی بڑھ گئی ہے مری دوستو
ساتھ اپنے ہی لانا غضب ہوگیا
ملنے آیا نہیں چھوڑ کر چل دیا
وعدہ اپنا نبھانا غضب ہوگیا