پیار کی ہر اک رسم کہ جو متروک تھی میں نے جاری کی
عشق لبادہ تن پر پہنا اور محبت طاری کی
میں اب شہر عشق میں کچھ قانون بنانے والا ہوں
اب اس اس کی خیر نہیں ہے جس جس نے غداری کی
پہلے تھوڑی بہت محبت کی کہ کیسی ہوتی ہے
پر جب اصلی چہرہ دیکھا میں نے تو پھر ساری کی
جو بھی مڑ کر دیکھے گا وہ پتھر کا ہو جائے گا
دیکھو دیکھو شہر میں آئے سناٹا اور تاریکی
ایک جنم میں میں اس کا تھا ایک جنم میں وہ میرا
ہم نے کی ہر بار محبت لیکن باری باری کی
ہم سا ہو تو سامنے آئے عادل اور انصاف پسند
دشمن کو بھی خون رلایا یاروں سے بھی یاری کی
ایسا پیار تھا ہم دونوں میں کہ برسوں لا علم رہے
اس نے بھی کردار نبھایا میں نے بھی فن کاری کی
بات تو اتنی سی ہے واپس جانے کو میں آیا تھا
سانس اٹھائی عمر سمیٹی چلنے کی تیاری کی