دل پہ تانی ہوئی تلوار کی ایسی تیسی
پیار یہ ہے تو ایسے پیار کی ایسی تیسی
جن پہ مشرق کی حیاؤں کا کوئی رنگ نہیں
ایسے کھلتے لب و رخسار کی ایسی تیسی
کھل گئے ہیں بیوٹی پارلر مردانہ بھی
اب تیرے حسن کی یلغار کی ایسی تیسی
دیکھ کرتا ہوں میں کیا حال انکا شعروں میں
پھول کی رنگ کی مہکار کی ایسی تیسی
ٹھونس ڈالا ہے اسے خون مخنث میں نے
تیرے اس عاشق لاچار کی ایسی تیسی
جانتا ہوں میں اسکی وگ کی حقیقت کو
گنجے کی زلف تابدار کی ایسی تیسی
منہ دھوئے تو کوہ قاف کی مکیں نکلیں
حسن کے ایسے سیمینار کی ایسی تیسی
سو تو کیا لاکھ مریضوں کی جو نظر میں ہو
ایسے بے سمت سے انار کی ایسی تیسی
ہم نے تو غالب و اقبال کو نہیں بخشا
تیرے بے ساختہ اشعار کی ایسی تیسی