اپنے وطن پہ پڑی کس کی بُری نظر ہے
کہ سہما سہما سا یہاں ہر اک بشر ہے
بسر زندگی ہو رہی تھی یہاں ہنستے کھیلتے
مگر اب تو اجڑا اجڑا سا ہر اک نگر ہے
حادثوں پہ حادثہ یہاں ، غموں کا ہے اک پہاڑ
انساں یہاں تو ہر اک اب خستہ جگر ہے
وہ سکوں کہاں گیا ، وہ امن کہیں کھو گیا
دہشت سے دل میں ہر کسی کے اک ڈر ہے
دشمن لگا ہوا ہے وطن کواپنے اجاڑنے
لیکن ہماری جرات، ہماری ہمت سے بے خبر ہے
وار اتنے تو کرکے دیکھ لئے، سمجھا کچھ بھی نہیں
ہر لمحہ وطن پہ قرباں ہر کسی کا جسم و سر ہے
کبھی نہتوں پہ وار کرتا ، کبھی پھولوں کو ہے کچلتا
دشمن کے لئے تو لازم اب آتشِ سقر ہے
جتنا بھی خوں بہا لو ، جتنا بھی ستم ڈھا لو
ظلم کی گھڑی تو بس پہر دو پہر ہے
حوصلے ہیں جواں ، جذبو ں میں ہے صداقت
ہم اہل وطن کو تو نویدِ ظفر ہے
پیارا پیارا جو ہے وطن ، ہمارے لئے ہے ایک چمن
جاں سے پیارا ہمیں اس کا ہر برگ و بر ہے
بزرگوں کی ہے امانت ، رکھیں گے سنبھال کے
محو اسی میں ہر اک کا اب شام و سحر ہے
جان جائے تو جائے اپنے ہی وطن پہ
زندگی تو دو دنوں کا بس اک سفر ہے
کوئی دیکھے نہ میلی آنکھ سے اپنے وطن کو
دل و جاں سے پیارا ، اس کا دیوار و در ہے
شہادت کے لئے چنتا ہے اسے ہی
جو اللہ کو ہوتا بہت منظورِ نظر ہے
وطن کی قیمت کہاں جانیں یہ بے خبر
اہل ایماں کو ہی اصل اس کی قدر ہے
زندگی جو گذرے اس کی حفاظت میں دوستوں
وہ مانند آفتاب ، وہ رشکِ قمر ہے
مالک لوٹا دے امن و خوشیاں میرے وطن کو
دعا سب کی یہ تجھ سے شام و سحر ہے
قرباں ہو جاؤں اپنے پیارے وطن پہ کاشف
مانگی یہی دعا میں نے تو عمر بھر ہے