Add Poetry

پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی

Poet: قمر جلالوی By: faizan, Peshawar

پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی
گرمی تو دیکھو ڈوبے ہوئے آفتاب کی

رخ سے جدا جو حشر میں تم نے نقاب کی
دنیا یہ تاب لائے گی دو آفتاب کی

ساقی یہ رقم سچ ہے جو مجھ پر حساب کی
بوتل پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھا شراب کی

کیا کم تھا حسن باغ کہ اے باغبان حسن
اک شاخ تو نے اور لگا دی شباب کی

وہ تو رہا کلیم کے اصرار کا جواب
اور یہ جو تو نے طور کی مٹی خراب کی

موسیٰ کو اس نے سر پہ چڑھایا بھی تھا بہت
جلوے نے خوب طور کی مٹی خراب کی

پھیرو نہ آنکھیں تم مرے اشکوں کے جوش پر
طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی

اللہ اس کا کچھ بھی جوانی پہ حق نہیں
برسوں دعائیں مانگی ہیں جس نے شباب کی

رکھیے معاف شیخ جی مسجد میں ہجو مے
باتیں خدا کے گھر میں نہ کیجے شراب کی

باغ جہاں میں اور بھی تم سے تو ہیں مگر
ہر پھول میں نہیں ہے نزاکت گلاب کی

جب سے گئے ہیں دیکھ کے تارے وہ اے قمرؔ
صورت بدل گئی ہے شب ماہتاب کی

Rate it:
Views: 1046
07 Jul, 2021
More Qamar Jalalvi Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets