پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی
Poet: قمر جلالوی By: faizan, Peshawarپیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی
گرمی تو دیکھو ڈوبے ہوئے آفتاب کی
رخ سے جدا جو حشر میں تم نے نقاب کی
دنیا یہ تاب لائے گی دو آفتاب کی
ساقی یہ رقم سچ ہے جو مجھ پر حساب کی
بوتل پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھا شراب کی
کیا کم تھا حسن باغ کہ اے باغبان حسن
اک شاخ تو نے اور لگا دی شباب کی
وہ تو رہا کلیم کے اصرار کا جواب
اور یہ جو تو نے طور کی مٹی خراب کی
موسیٰ کو اس نے سر پہ چڑھایا بھی تھا بہت
جلوے نے خوب طور کی مٹی خراب کی
پھیرو نہ آنکھیں تم مرے اشکوں کے جوش پر
طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی
اللہ اس کا کچھ بھی جوانی پہ حق نہیں
برسوں دعائیں مانگی ہیں جس نے شباب کی
رکھیے معاف شیخ جی مسجد میں ہجو مے
باتیں خدا کے گھر میں نہ کیجے شراب کی
باغ جہاں میں اور بھی تم سے تو ہیں مگر
ہر پھول میں نہیں ہے نزاکت گلاب کی
جب سے گئے ہیں دیکھ کے تارے وہ اے قمرؔ
صورت بدل گئی ہے شب ماہتاب کی
توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی
پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی
پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی
اچھا تو دونوں وقت ملے کوسیئے حضور
پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی
اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ
بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی
دیکھو چراغ قبر اسے کیا جواب دے
آئے گی شام ہجر مجھے پوچھتی ہوئی
قاصد انہیں کو جا کے دیا تھا ہمارا خط
وہ مل گئے تھے ان سے کوئی بات بھی ہوئی؟
جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام
ساقی رہے گی گردش دوراں رکی ہوئی
مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمرؔ
کیسے وہ آ سکیں گے اگر چاندنی ہوئی
دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے
بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ
گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر ملے
ان سے ہمیں نگاہ کرم کی امید کیا
آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر ملے
وعدہ غلط پتے بھی بتائے ہوئے غلط
تم اپنے گھر ملے نہ رقیبوں کے گھر ملے
افسوس ہے یہی مجھے فصل بہار میں
میرا چمن ہو اور مجھی کو نہ گھر ملے
چاروں طرف ہے شمع محبت کی روشنی
پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر ملے
ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے مے خانے کو ہم
لے کے اپنے ساتھ اک خاموش دیوانے کو ہم
جا رہے ہیں حضرت ناصح کو سمجھانے کو ہم
یاد رکھیں گے تمہاری بزم میں آنے کو ہم
بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم
حسن مجبور ستم ہے عشق مجبور وفا
شمع کو سمجھائیں یا سمجھائیں پروانے کو ہم
رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں
دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم
الجھنیں طول شب فرقت کی آگے آ گئیں
جب کبھی بیٹھے کسی کی زلف سلجھانے کو ہم
راستے میں رات کو مڈبھیڑ ساقی کچھ نہ پوچھ
مڑ رہے تھے شیخ جی مسجد کو بت خانے کو ہم
شیخ جی ہوتا ہے اپنا کام اپنے ہاتھ سے
اپنی مسجد کو سنبھالیں آپ بت خانے کو ہم
دو گھڑی کے واسطے تکلیف غیروں کو نہ دے
خود ہی بیٹھے ہیں تری محفل سے اٹھ جانے کو ہم
آپ قاتل سے مسیحا بن گئے اچھا ہوا
ورنہ اپنی زندگی سمجھے تھے مر جانے کو ہم
سن کے شکوہ حشر میں کہتے ہو شرماتے نہیں
تم ستم کرتے پھرو دنیا پہ شرمانے کو ہم
اے قمرؔ ڈر تو یہ ہے اغیار دیکھیں گے انہیں
چاندنی شب میں بلا لائیں بلا لانے کو ہم
خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے
باغباں کچھ سوچ کر ہم قید سے چھوٹے نہ تھے
ورنہ کچھ پاؤں نہ تھے بیکار پر ٹوٹے نہ تھے
خار جب اہل جنوں کے پاؤں میں ٹوٹے نہ تھے
دامن صحرا پہ یہ رنگین گل بوٹے نہ تھے
رہ گئی محروم آزادی کے نغموں سے بہار
کیا کریں قید زباں بندی سے ہم چھوٹے نہ تھے
اس جوانی سے تو اچھی تھی تمہاری کم سنی
بھول تو جاتے تھے وعدوں کو مگر جھوٹے نہ تھے
اس زمانے سے دعا کی ہے بہاروں کے لئے
جب فقط ذکر چمن بندی تھا گل بوٹے نہ تھے
کیا یہ سچ ہے اے مرے صیاد گلشن لٹ گیا
جب تو میرے سامنے دو پھول بھی ٹوٹے نہ تھے
چھوڑ تو دیتے تھے رستے میں ذرا سی بات پر
رہبروں نے منزلوں پر قافلے لوٹے نہ تھے
کس قدر آنسو بہائے تم نے شام غم قمرؔ
اتنے تارے تو فلک سے بھی کبھی ٹوٹے نہ تھے
مایوس نظر ہے در کی طرف اور جان نکلتی جاتی ہے
چہرے سے سرکتی جاتی ہے زلف ان کی خواب کے عالم میں
وہ ہیں کہ ابھی تک ہوش نہیں اور شب ہے کہ ڈھلتی جاتی ہے
اللہ خبر بجلی کو نہ ہو گلچیں کی نگاہ بد نہ پڑے
جس شاخ پہ تنکے رکھے ہیں وہ پھولتی پھلتی جاتی ہے
عارض پہ نمایاں خال ہوئے پھر سبزۂ خط آغاز ہوا
قرآں تو حقیقت میں ہے وہی تفسیر بدلتی جاتی ہے
توہین محبت بھی نہ رہی وہ جور و ستم بھی چھوٹ گئے
پہلے کی بہ نسبت حسن کی اب ہر بات بدلتی جاتی ہے
لاج اپنی مسیحا نے رکھ لی مرنے نہ دیا بیماروں کو
جو موت نہ ٹلنے والی تھی وہ موت بھی ٹلتی جاتی ہے
ہے بزم جہاں میں نا ممکن بے عشق سلامت حسن رہے
پروانے تو جل کر خاک ہوئے اب شمع بھی جلتی جاتی ہے
شکوہ بھی اگر میں کرتا ہوں تو جور فلک کا کرتا ہوں
بے وجہ قمرؔ تاروں کی نظر کیوں مجھ سے بدلتی جاتی ہے
دل کو ہے درد درد کو ہے دل لئے ہوئے
دیکھا خدا پہ چھوڑ کے کشتی کو ناخدا
جیسے خود آ گیا کوئی ساحل لئے ہوئے
دیکھو ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے
تم رات دن ستاؤ مگر دل لئے ہوئے
وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں
اور تم اٹھے تھے رونق محفل لئے ہوئے
اپنی ضروریات ہیں اپنی ضروریات
آنا پڑا تمہیں طلب دل لئے ہوئے
بیٹھا جو دل تو چاند دکھا کر کہا قمرؔ
وہ سامنے چراغ ہے منزل لئے ہوئے






