پیشوا آ گئے، مقتدا آ گئے
دونوں عالم کے حاجت روا آ گئے
معدن شان جود و سخا آ گئے
مجتبیٰ آ گئے ، مصطفیٰ آ گئے
رحمت دو جہاں، حامئی بیکساں
سرور سروراں، حق نما آ گئے
ضوفشاں جن کے دم سے چراغ حرم
پرتو ذات، نور ہدیٰ آ گئے
تیرگی تھی زمانے میں چاروں طرف
وہ لئے جلوہ والضحیٰ آ گئے
رنج و غم کا کوئی خوف باقی نہیں
بن کے ہر دل کا وہ آسرا آ گئے
جو ہیں رحمت نشاں، جن کا سایہ اماں
ہم گنہگاروں کا مدعا آ گئے
جھولیاں سب فقیروں کی بھرنے لگیں
مؤجد رسم لطف و عطا آ گئے
مصطفیٰ شاہ و مخدوم کونین ہیں
سید و سرور دوسرا آ گئے
جو نبوت کا داعی ہے، مردود ہے
دہر میں خاتم الانبیا آ گئے
ماحی شرک و بدعت ہیں پیدا ہوئے
قاطع ظلمت ما سوا آ گئے
بیکسوں کو کیا جس نے ہے سر بلند
بے نواؤں کے وہ آشنا آ گئے
جھوم اٹھے آج رومی خوشی میں سبھی
رقص میں پڑھ کے صلی علیٰ آ گئے