چار سو ہے بڑی وحشت کا سماں
کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں
کوئی آواز سی ہے مرثیہ خواں
شہر کا شہر بنا گورستاں
ایک مخلوق جو بستی ہے یہاں
جس پہ انساں کا گزرتا ہے گماں
خود تو ساکت ہے مثال تصویر
جنبش غیر سے ہے رقص کناں
کوئی چہرہ نہیں جز زیر نقاب
نہ کوئی جسم ہے جز بے دل و جاں
علما ہیں دشمن فہم و تحقیق
کودنی شیوۂ دانش منداں
شاعر قوم پہ بن آئی ہے
کذب کیسے ہو تصوف میں نہاں
لب ہیں مصروف قصیدہ گوئی
اور آنکھوں میں ہے ذلت عریاں
سبز خط عاقبت و دیں کے اسیر
پارسا خوش تن و نو خیز جواں
یہ زن نغمہ گر و عشق شعار
یاس و حسرت سے ہوئی ہے حیراں
کس سے اب آرزوئے وصل کریں
اس خرابے میں کوئی مرد کہاں