چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شب تنہائی کا
دولت لب سے پھر اے خسرو شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمئی رشک سے ہر انجمن گل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحن گلشن میں کبھی اے شہ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دل دل زدگاں
کوئی وعدہ کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہ و دل کو سنبھالو کہ سر شام فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا