چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا
رات دل پر غم دل صورت شبنم برسا
جلتی جاتی ہیں جڑیں سوکھتے جاتے ہیں شجر
ہو جو توفیق تو آنسو ہی کوئی دم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غنچے شاکی ہیں کہ یہ ابر بہت کم برسا
پے بہ پے آئے سجل تاروں کے مانند خیال
میری تنہائی پہ شب حسن جھما جھم برسا
کتنے ناپید اجالوں سے کیا ہے آباد
وہ اندھیرا جو مری آنکھوں پہ پیہم برسا
سرد جھونکوں نے کہی سونی رتوں سے کیا بات
کن تمناؤں کا خوں شاخوں سے تھم تھم برسا
قریہ قریہ تھی ضیاؔ حسرت آبادئ دل
قریہ قریہ وہی ویرانی کا عالم برسا