چُرا کے مسجد سے میرا جوتا کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب منحوس اجنبی تھا ، مجھے پریشان کر گیا وہ
نہ جانے کس کس کی جیب کاٹی ، وہ جیب کُترا کہاں سے آیا
چڑھا کہاں سے چلا کہاں تک ، نہ جانے کس جا اُتر گیا وہ
بڑا یہ معصوم بن رہا تھا وہ قرض لینے تھا آیا جس دم
میں آج واپس جو لینے پہنچا تو ڈھیٹ منہ پر مکر گیا وہ
وہ جس نے گلشن اجاڑ ڈالا نہ ایک پودا ہی چھوڑا جس نے
میں ڈھونڈتا تھا خبیث بکرا کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
میں جاں ہتھیلی پہ آج رکھ کر نوید پہنچا جو ان کے در پر
توان کا خونخوار سگ کھڑا تھا مجھے جو دیکھا بپھر گیا وہ