چراغ راہ بجھا کیا کہ رہ نما بھی گیا
ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا
اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا
سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا
یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں رتجگا بھی گیا