چراغ میلے سے باہر رکھا گیا وہ بھی
ہوا کی طرح سے نامعتبر رہا وہ بھی
زمین زاد بھی بھُولا جو لفظِ رہداری
فصیلِ شہر سے باہر کھڑا رہا وہ بھی
میں اُس کے سارے رویوں پر معترض ہوتی
مری طرح سے مگر تھا دُکھا ہوا وہ بھی
گلی کے موڑ پہ دیکھا اُسے تو کیسی خوشی
کسی کے واسطے ہو گا رُکا ہوا وہ بھی
میں اُس کی کھوج میں دیوانہ وار پھرتی رہی
اسی لگن سے کبھی مجھ کو ڈھونڈتا وہ بھی