چشمِ دل محوِ اشکباری ہے
پھر ہمیں آرزو تمہاری ہے
پھر چلے سُوئے دشت دیوانے
بوئے گُل عاشقوں پہ بھاری ہے
نہ ہُوا تیر پَر خطا جس کا
موت وہ معتبر شکاری ہے
آ سکا ہاتھ میں نہ جب "کافر"
کہہ دیا شیخ نے "یہ ناری ہے"
لب پہ "ناچیز" اور انا دل میں
خاک ہے، گَر یہ خاکساری ہے
شاعری بے سبب نہیں صاحب
"کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے"
(غالب کی زمیں میں، ایک طرحی مشاعرے کے لئے)