چلتی رہتی ہے تسلسل سے جنوں خیز ہوا
جلتا رہتا ہے مگر پھر بھی کہیں ایک دیا
کسی محفل میں کوئی شخص بہت کھل کے ہنسا
واقعہ یہ تو عجب آج یہاں پیش آیا
یاد آتا ہے بہت ایک پرانا آنگن
جس میں پیپل کا گھنا پیڑ ہوا کرتا تھا
اشک بہتے ہیں تو بہتے ہی چلے جاتے ہیں
روک سکتا ہے بہاؤ بھی کوئی دریا کا
رات ہم ایک غزل لکھتے ہوئے روتے رہے
بعض لفظوں کو تو اشکوں نے مٹا ہی ڈالا
پھر سے ٹکرا گیا مجھ ہی سے مرے دل کا مفاد
پھر سے برپا ہوا اک معرکۂ کرب و بلا