چلنے لگا ہوں طیبہ کے گلزار کی طرف
دل کھنچ رہا ہے رحمت غفار کی طرف
کیوں کر نہ جائیں لوگ فدا ان کے نام پر
خود ہے خدا بھی احمد مختار کی طرف
بکنے کو آئے یوسف کنعان خود یہاں
جائے گا کون مصر کے بازار کی طرف
آئیں نہ بھول کر بھی حوادث یہاں کبھی
بڑھتے ہیں ہاتھ اپنے مددگار کی طرف
دامن مراد سے یہ بھرے کیوں نہ جائیں اب
آنکھیں لگی ہوئی ہیں در یار کی طرف
آئیں گے جب بہار مدینہ کے گل نظر
دیکھے گا کون خلد کے گلزار کیطرف
شاہ امم ! تمھارے سوا میرا کون ہے ؟
اٹھتی نہیں نظر کسی غم خوار کی طرف
کیونکر طواف اس کا نہ کرتی پھرے شفا
وہ آ گئے ہیں چل کے جو بیمار کی طرف
محشر میں یہ کہوں گا میں رضواں سے برملا
لے کر مجھے چلو مرے سرکار کی طرف
آساں نہیں ہیں نعت کے اشعار باندھنا
ان کا کرم ہے شاعر دربار کی طرف
دیکھے نہ گلرخوں کو پلٹ کر میری نظر
نہ حور کی طرف نہ طرحدار کی طرف
کیوں کر نہ ناز اپنے مقدر پہ یہ کرے
ان کی عطا ہے رومی نادار کی طرف