ہرطرف شور ہے آج چھترول کا
اور چرچا ہے بجلی و پیٹرول کا
اب تو ہاکی میں بھی ہار کر آگئے
بوجھ دل پر لیئے بھارتی گول کا
نرخ ہر چیز کے آسمان تک گئے
سننے والوں نے دکھڑا سنا مول کا
کام بس کام چوری بھی تو کام ہے
مان رکھا ہے قائد تیرے قول کا
ماہ اپریل کیا اب تو ہر ماہ یہاں
دن مناتے ہیں احباب اک فول کا
گرد اڑتی ہے غربت کی چاروں طرف
شور ہوتا نہیں اب یہاں دھول کا
چھوٹ جائیگا تو بھی یہاں جلد ہی
حکم نامہ ملا گر جو پیرول کا
شعر تو نے مناسب کہے ہیں مگر
شائبہ سا ہوا کچھ مجھے جھول کا
تجھ سے نفرت تیری بے خودی ہے اشہر
لوگ کہتے ہیں کانٹا تجھے پھول کا