دریچے میں ان کا نزول دیکھا ہے
گویا کوئی حسین پھول دیکھا ہے
بھلانے سے نہیں بھولتا ہے وہ
کئی بار اسے بھول دیکھا ہے
کل تاج تھے جو سروں کے
انہیں رستے کی دھول دیکھا ہے
پارسا بنتے ہیں جو زمانے میں
انہیں میکدے میں مشغول دیکھا ہے
آدمی ہی آدمی کے پاؤں کھینچے
اس زمانے کا یہ اصول دیکھا ہے
ہاں اشفاق دیوانہ ہے ہم نے
اس کے رتجگوں کا معمول دیکھا ہے