کاجل اداس ہے تو ہیں بے کل سی چوڑیاں
Poet: Dua Ali By: yumna, khi
کاجل اداس ہے تو ہیں بے کل سی چوڑیاں
تم کو بلا رہی ہیں یہ چنچل سی چوڑیاں
ساون کی مجھ کو پیاس ہے پیاسی ہوں مثل ریت
تجھ پر برس رہی ہیں یہ بادل سی چوڑیاں
کرتی ہیں خوب شور نہ سونے یہ مجھ کو دیں
دیوانی ہو گئی ہیں یہ پاگل سی چوڑیاں
دیکھو کھنک رہی ہیں یہ خاموشیوں میں بھی
آنکھوں میں سج رہی ہیں یہ جل تھل سی چوڑیاں
پل پل یہ چھو رہی ہیں مرا جسم اور بدن
کرتی ہیں مجھ کو تنگ یہ سانول سی چوڑیاں
اے شاہ دل سہاگ نشانی ہماری ہیں
پیاری ہیں مجھ کو جان سے پرپل سی چوڑیاں
خوشبو مرے بدن کی چراتی ہیں روز و شب
دیکھو دعاؔ کمال ہیں صندل سی چوڑیاں
More Dua Ali Poetry
کاجل اداس ہے تو ہیں بے کل سی چوڑیاں کاجل اداس ہے تو ہیں بے کل سی چوڑیاں
تم کو بلا رہی ہیں یہ چنچل سی چوڑیاں
ساون کی مجھ کو پیاس ہے پیاسی ہوں مثل ریت
تجھ پر برس رہی ہیں یہ بادل سی چوڑیاں
کرتی ہیں خوب شور نہ سونے یہ مجھ کو دیں
دیوانی ہو گئی ہیں یہ پاگل سی چوڑیاں
دیکھو کھنک رہی ہیں یہ خاموشیوں میں بھی
آنکھوں میں سج رہی ہیں یہ جل تھل سی چوڑیاں
پل پل یہ چھو رہی ہیں مرا جسم اور بدن
کرتی ہیں مجھ کو تنگ یہ سانول سی چوڑیاں
اے شاہ دل سہاگ نشانی ہماری ہیں
پیاری ہیں مجھ کو جان سے پرپل سی چوڑیاں
خوشبو مرے بدن کی چراتی ہیں روز و شب
دیکھو دعاؔ کمال ہیں صندل سی چوڑیاں
تم کو بلا رہی ہیں یہ چنچل سی چوڑیاں
ساون کی مجھ کو پیاس ہے پیاسی ہوں مثل ریت
تجھ پر برس رہی ہیں یہ بادل سی چوڑیاں
کرتی ہیں خوب شور نہ سونے یہ مجھ کو دیں
دیوانی ہو گئی ہیں یہ پاگل سی چوڑیاں
دیکھو کھنک رہی ہیں یہ خاموشیوں میں بھی
آنکھوں میں سج رہی ہیں یہ جل تھل سی چوڑیاں
پل پل یہ چھو رہی ہیں مرا جسم اور بدن
کرتی ہیں مجھ کو تنگ یہ سانول سی چوڑیاں
اے شاہ دل سہاگ نشانی ہماری ہیں
پیاری ہیں مجھ کو جان سے پرپل سی چوڑیاں
خوشبو مرے بدن کی چراتی ہیں روز و شب
دیکھو دعاؔ کمال ہیں صندل سی چوڑیاں
yumna
مجھے ہنسنے کی عادت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا مجھے ہنسنے کی عادت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
ذرا سی اک شرارت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
مری ہر بات پر ہنسنے سے اکثر وہ الجھتا تھا
مجھے اس سے محبت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
میں ہنستی تھی کہ رنج و غم مرا ظاہر نہ ہو اس پر
مقدر میں جو ظلمت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
میں سن کر ٹال جاتی تھی نصیحت کی سبھی باتیں
مری دل سے بغاوت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
سنانا حال دل چاہا مگر اس کو بھی جلدی تھی
بڑی اچھی حکایت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
منانا چاہتی تھی سچے دل سے اے دعاؔ اس کو
اسے مجھ سے شکایت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
ذرا سی اک شرارت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
مری ہر بات پر ہنسنے سے اکثر وہ الجھتا تھا
مجھے اس سے محبت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
میں ہنستی تھی کہ رنج و غم مرا ظاہر نہ ہو اس پر
مقدر میں جو ظلمت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
میں سن کر ٹال جاتی تھی نصیحت کی سبھی باتیں
مری دل سے بغاوت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
سنانا حال دل چاہا مگر اس کو بھی جلدی تھی
بڑی اچھی حکایت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
منانا چاہتی تھی سچے دل سے اے دعاؔ اس کو
اسے مجھ سے شکایت تھی مگر وہ اور کچھ سمجھا
sana






