کاروان حسین
اکسٹھ ہجری سے آج تک تاریخ
اس بات کی گواہی دے رہی ہے
کاروان حسین کو سدا صعوبتوں کا سفر درپیش رہتا ہے
حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کرنے والوں پر
عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے
کربلا آج بھی موجود ہے
عدل عنقا ہے ،جبر غالب ہے
مظلومیت دادرسی کی طالب ہے
بارگاہ حسین
ارض و سما بارگاہ حسین کی ہے
شش جہت سجدہ گاہ حسین کی ہے
عاصیو مغفرت جو چاہتے ہو
مغفرت بے پناہ حسین کی ہے
رحمتوں کا باب
سر بہ سر رحمتوں کا باب حسین
ظلمتیں کافور کرنے میں
کامران اور کامیاب حسین
اذہان کی تطہیر اور تنویر کی خاطر
آفتاب اور ماہتاب حسین
ٓانصاف
مٹا دیا جہاں سے تفریط اور افراط کو
تشنہ لب کیسے جنگ کرتے ہیں
دکھلا دیا آئینہ نہر فرات کو
شیر خدا کے لال نے کر دیا کمال
حق و انصاف کی بقا کے لیے
سارا گھر راہ حق میں وار دیا
حیران کر دیا پھر شش جہات کو
لمحہء فکریہ
آج بھی انساں اپنے چار سو
دیکھتا ہے برق تپاں کے شعلے
آج بھی وقت کے شمر اور یزید
ہنستے بستے ہوئے گھر اجاڑ دیتے ہیں
حق و انصاف کی جو بات کرے