شادی کے بعد حسن کا نکھار ختم ہو گیا
لیلیٰ مجنوں میں تھا جو پیار ختم ہو گیا
لیلیٰ نے مار مار کے گنجا کر دیا اس کو
مجنوں پہ چھایا ہوا خمار ختم ہو گیا
گھر سے جاتا ہے تو ہفتوں خبر نہیں آتی
عشق پر سے اس کا اعتبار ختم ہو گیا
کاغذ جیسی روٹی تھی وہ بھی گئی مک
مرتبان میں رکھا تھا جو اچار ختم ہو گیا
لات مار کے دھتکار دیں گے امریکہ والے
اک بار جو پاکستان پر انحصار ختم ہو گیا
کجلا بڑا مہنگا بکتا ہے بازار میں اب
عاشقوں پر حسین اکھیوں کا وار ختم ہو گیا
چاروں صوبوں میں سیاست کا بازار گرم ہے
عثمان باقی جو بھی تھا کاروبار ختم ہو گیا