کام پڑا جب حمزہ سے تو تعلق بنانے آیا کوئی
تعلق کے روپ میں رشتے داریاں نکالنے آیا کوئی
حق بیان کیا ہم نے تو تنقید کی اہل زمانہ نے
جب میں نے صبر کیا تو مجھے آزمانے آیا کوئی
اختتام زندگی پر منافقوں کی سازش شامل تھی
دیکھا جب لحد کو تو دور سے مسکرایا کوئی
دکھ ہوا سن کر کہ دشمنوں کی یہ چال نہ تھی
دیکھا جب لحد کو تو رو رو کر پچھتایا کوئی
بعد مرنے کے میری لحد پر ہجوم رہا کئی روز
ایک صدی بعد قبر حمزہ پر نہ آیا کوئی
ہوئی رو آذاد تو مجھے لینے آئے اولیاء
میں خوش ہوا مرشد کے ساتھ آیا کوئی
تاریخ لکھوں جب تو ڈھونڈ لینا لحد میری
نام و نشان مٹ گئے حمزہ کو رونے نہ آیا کوئی