کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا
دھوپ میں پھرنا گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا
ساتھ اس کے کوئی منظر کوئی پس منظر نہ ہو
اس طرح میں چاہتا ہوں اس کو تنہا دیکھنا
رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا
کس سے پوچھیں خواب میں کیسا ہے دریا دیکھنا
اس گھڑی کچھ سوجھنے دے گی نہ یہ پاگل ہوا
اک ذرا آندھی گزر جائے تو حلیہ دیکھنا
کھل کے رو لینے کی فرصت پھر نہ اس کو مل سکی
آج پھر انورؔ ہنسے گا بے تحاشا دیکھنا