کب وہ سنتا ہے کہانی میری

Poet: مرزا غالب By: Sohaim, Karachi
Kab Wo Sunta Hai Kahani Meri

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

خلش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خونابہ فشانی میری

کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری

ہوں زخود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری

متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری

قدر سنگ سر رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری

گرد باد رہ بیتابی ہوں
صرصر شوق ہے بانی میری

دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری

کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ
ننگ پیری ہے جوانی میری

Rate it:
Views: 2410
07 Jul, 2021