کبھی اشارا ہوا بھی ایسا کہ رازٍِ دل سب بتا دیا
کبھی زباں بھی کھلی نہیں پر تو ماجرا سب سنا دیا
کبھی حضوری بھی ایسی کہ زندگی حقیقت ہو ہی جائے
ہوئی جو دوری تو زندگی کو فسانہ ہی تو بنا دیا
انہیں کے در کی تو خاک چھانیں یہی تمنا تو اپنی ہے
رہا جو وابستہ ان کے در سے نصیب سوتا جگا دیا
اسی نے دریا چلا دیئے دو کہ اک ہے کھارا تو اک میٹھا
عجیب کاریگری ہے یہ آڑ بیچ میں تو لگا دیا
وہ کیسے بے بس ہی نوجواں تھےکہ غار میں ہی چھپے رہے
انہیں کو فاتح بنا کے سب کو سبق انوکھا پڑھا دیا
کرے جو جیسا بھرے وہ ویسا یہ بات پیش نظر رہے
رہے عمل پرنظر ہمیشہ یہ اثر نے ہی سکھا دیا