کبھی تری کبھی اپنی حیات کا غم ہے
Poet: احمد راہی By: Umair Khan, Lahore
کبھی تری کبھی اپنی حیات کا غم ہے
ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے
خیال تھا ترے پہلو میں کچھ سکوں ہوگا
مگر یہاں بھی وہی اضطراب پیہم ہے
مرے مذاق الم آشنا کا کیا ہوگا
تری نگاہ میں شعلے ہیں اب نہ شبنم ہے
سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے
چراغ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے
یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
کہ ہر قدم پہ عجب بے بسی کا عالم ہے
More Ahmad Rahi Poetry
کبھی تری کبھی اپنی حیات کا غم ہے کبھی تری کبھی اپنی حیات کا غم ہے
ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے
خیال تھا ترے پہلو میں کچھ سکوں ہوگا
مگر یہاں بھی وہی اضطراب پیہم ہے
مرے مذاق الم آشنا کا کیا ہوگا
تری نگاہ میں شعلے ہیں اب نہ شبنم ہے
سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے
چراغ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے
یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
کہ ہر قدم پہ عجب بے بسی کا عالم ہے
ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے
خیال تھا ترے پہلو میں کچھ سکوں ہوگا
مگر یہاں بھی وہی اضطراب پیہم ہے
مرے مذاق الم آشنا کا کیا ہوگا
تری نگاہ میں شعلے ہیں اب نہ شبنم ہے
سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے
چراغ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے
یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
کہ ہر قدم پہ عجب بے بسی کا عالم ہے
Umair Khan
تنہائیوں کے دشت میں اکثر ملا مجھے تنہائیوں کے دشت میں اکثر ملا مجھے
وہ شخص جس نے کر دیا مجھ سے جدا مجھے
وارفتگی مری ہے کہ ہے انتہائے شوق
اس کی گلی کو لے گیا ہر راستہ مجھے
جیسے ہو کوئی چہرہ نیا اس کے روبرو
یوں دیکھتا رہا مرا ہر آشنا مجھے
حرف غلط سمجھ کے جو مجھ کو مٹا گیا
اس جیسا اس کے بعد نہ کوئی لگا مجھے
پہلے ہی مجھ پہ کم نہیں تیری عنایتیں
دم لینے دے اے گردش دوراں ذرا مجھے
مشکل مجھے ڈوبنا کنارے پہ بھی نہ تھا
ناحق بھنور میں لایا مرا ناخدا مجھے
یہ زندگی کہ موت بھی ہے جس پہ نوحہ خواں
کس جرم کی نہ جانے ملی ہے سزا مجھے
وہ شخص جس نے کر دیا مجھ سے جدا مجھے
وارفتگی مری ہے کہ ہے انتہائے شوق
اس کی گلی کو لے گیا ہر راستہ مجھے
جیسے ہو کوئی چہرہ نیا اس کے روبرو
یوں دیکھتا رہا مرا ہر آشنا مجھے
حرف غلط سمجھ کے جو مجھ کو مٹا گیا
اس جیسا اس کے بعد نہ کوئی لگا مجھے
پہلے ہی مجھ پہ کم نہیں تیری عنایتیں
دم لینے دے اے گردش دوراں ذرا مجھے
مشکل مجھے ڈوبنا کنارے پہ بھی نہ تھا
ناحق بھنور میں لایا مرا ناخدا مجھے
یہ زندگی کہ موت بھی ہے جس پہ نوحہ خواں
کس جرم کی نہ جانے ملی ہے سزا مجھے
Umair Khan
دن کو رہتے جھیل پر دریا کنارے رات کو دن کو رہتے جھیل پر دریا کنارے رات کو
یاد رکھنا چاند تارو اس ہماری بات کو
اب کہاں وہ محفلیں ہیں اب کہاں وہ ہم نشیں
اب کہاں سے لائیں ان گزرے ہوئے لمحات کو
پڑ چکی ہیں اتنی گرہیں کچھ سمجھ آتا نہیں
کیسے سلجھائیں بھلا الجھے ہوئے حالات کو
کتنی طوفانی تھیں راتیں جن میں دو دیوانے دل
تھپکیاں دیتے رہے بھڑکے ہوئے جذبات کو
درد میں ڈوبی ہوئی لے بن گئی ہے زندگی
بھول جاتے کاش ہم الفت بھرے نغمات کو
وہ کہ اپنے پیار کی تھی بھیگی بھیگی ابتدا
یاد کر کے رو دیا دل آج اس برسات کو
یاد رکھنا چاند تارو اس ہماری بات کو
اب کہاں وہ محفلیں ہیں اب کہاں وہ ہم نشیں
اب کہاں سے لائیں ان گزرے ہوئے لمحات کو
پڑ چکی ہیں اتنی گرہیں کچھ سمجھ آتا نہیں
کیسے سلجھائیں بھلا الجھے ہوئے حالات کو
کتنی طوفانی تھیں راتیں جن میں دو دیوانے دل
تھپکیاں دیتے رہے بھڑکے ہوئے جذبات کو
درد میں ڈوبی ہوئی لے بن گئی ہے زندگی
بھول جاتے کاش ہم الفت بھرے نغمات کو
وہ کہ اپنے پیار کی تھی بھیگی بھیگی ابتدا
یاد کر کے رو دیا دل آج اس برسات کو
Zaid
وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا
کہ جس کے پیار میں احساس ماہ و سال گیا
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
کئی سوال تھے جو میں نے سوچ رکھے تھے
وہ آ گیا تو مجھے بھول ہر سوال گیا
جو عمر جذبوں کا سیلاب بن کے آئی تھی
گزر گئی تو لگا دور اعتدال گیا
وہ ایک ذات جو خواب و خیال لائی تھی
اسی کے ساتھ ہر اک خواب ہر خیال گیا
اسے تو اس کا کوئی رنج بھی نہ ہو شاید
کہ اس کی بزم سے کوئی شکستہ حال گیا
کہ جس کے پیار میں احساس ماہ و سال گیا
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
کئی سوال تھے جو میں نے سوچ رکھے تھے
وہ آ گیا تو مجھے بھول ہر سوال گیا
جو عمر جذبوں کا سیلاب بن کے آئی تھی
گزر گئی تو لگا دور اعتدال گیا
وہ ایک ذات جو خواب و خیال لائی تھی
اسی کے ساتھ ہر اک خواب ہر خیال گیا
اسے تو اس کا کوئی رنج بھی نہ ہو شاید
کہ اس کی بزم سے کوئی شکستہ حال گیا
Qaiser






