کبھی حضوری نے زندگی میں ہی تو حقیقت بھی لادیا
کبھی تو دوری نے زندگی کو ہی تو فسانہ بنادیا
کسی نے تو دردِ دل لیا ہے لٹا کے اپنی ہی زندگی
جو درد اس کو ملا کبھی تو اسی نے راحت دلا دیا
ستم کے پردے میں تو کرم ہے وہ بھی عنایت سے کم نہیں
ستم جو جم کر ہوا کبھی تو کرم بھی جم کر دکھادیا
جو بزمِ جاناں میں آنا ہو تو خرد کو بالائے طاق رکھ
وہ ہی تو محفل میں آئے جس نے خودی کو اپنی مٹا دیا
کوئی بھی دل میں سمائے کیسے کہ نقش دل میں تو غیر کا ہے
کہ دل ہو اغیار سے ہی خالی اسے مٌصفّا بنادیا
کبھی تو ہوجائیں خشک آنسو کبھی تو طغیانی نہ جائے
یہی محبت کے ہیں مہرباں انہیں سے جیون سجا دیا
نہ پاس کوئی سوا ہو ان کے یہ اثر کی تو تمنا ہے
ملے حضوری ہمیشہ ان کی اسی میں جیون کھپا دیا