کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں
Poet: اسرار By: اسرار, Jacobabadکبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں
کیسی دیوار اٹھاتے ہیں گرا دیتے ہیں
آؤ دو چار قدم چل کے بھی دیکھیں یارو
ہم سفر اپنے کہاں ہم کو دغا دیتے ہیں
جانے کیا سوچ کے اے دوست یہ ارباب چمن
زہر پاشی سے وہ پودوں کو جلا دیتے ہیں
یہ گزر گاہ کے پتھر تری ٹھوکر میں سہی
ہر قدم پر تجھے منزل کا پتا دیتے ہیں
یہ وہ دنیا ہے جہاں جھوٹ چھپانے کے لئے
لوگ سچائی کو سولی پہ چڑھا دیتے ہیں
جب بھی آتے ہیں اسے چھو کے ہوا کے جھونکے
دل کے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتے ہیں
دور و نزدیک یہ سناٹوں کے گہرے سائے
آنے والے کسی طوفاں کا پتہ دیتے ہیں
More Valentine Day Poetry
دکھی دلوں میں، دکھی ساتھیوں میں رہتے تھے دکھی دلوں میں، دکھی ساتھیوں میں رہتے تھے
یہ اور بات کہ ہم مسکرا بھی لیتے تھے
وہ ایک شخص برائی پہ تل گیا تو چلو
سوال یہ ہے کہ ہم بھی کہاں فرشتے تھے
اور اب نہ آنکھ نہ آنسو نہ دھڑکنیں دل میں
تمہی کہو کہ یہ دریا کبھی اترتے تھے
جدائیوں کی گھڑی نقش نقش بولتی ہے
وہ برف بار ہوا تھی، وہ دانت بجتے تھے
اب ان کی گونج یہاں تک سنائی دیتی ہے
وہ قہقہے جو تری انجمن میں لگتے تھے
وہ ایک دن کہ محبت کا دن کہیں جس کو
کہ آگ تھی نہ تپش بس سلگتے جاتے تھے
کہاں وہ ضبط کے دعوے کہاں یہ ہم گوہرؔ
کہ ٹوٹتے تھے نہ پھر ٹوٹ کر بکھرتے تھے
یہ اور بات کہ ہم مسکرا بھی لیتے تھے
وہ ایک شخص برائی پہ تل گیا تو چلو
سوال یہ ہے کہ ہم بھی کہاں فرشتے تھے
اور اب نہ آنکھ نہ آنسو نہ دھڑکنیں دل میں
تمہی کہو کہ یہ دریا کبھی اترتے تھے
جدائیوں کی گھڑی نقش نقش بولتی ہے
وہ برف بار ہوا تھی، وہ دانت بجتے تھے
اب ان کی گونج یہاں تک سنائی دیتی ہے
وہ قہقہے جو تری انجمن میں لگتے تھے
وہ ایک دن کہ محبت کا دن کہیں جس کو
کہ آگ تھی نہ تپش بس سلگتے جاتے تھے
کہاں وہ ضبط کے دعوے کہاں یہ ہم گوہرؔ
کہ ٹوٹتے تھے نہ پھر ٹوٹ کر بکھرتے تھے
مصدق رفیق
محبت کا جنم دن آج محبت کا جنم دن ہے
آج ہم اداسی کی چھری سے
اپنے دل کو کاٹیں گے
آج ہم اپنی پلکوں پر
جلتی ہوئی موم بتی رکھ کے
ایک تار پر سے گزریں گے
ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا
مگر ہم ہر بند کھڑکی کی طرف
دیکھیں گے
ہر دروازے کے سامنے پھول رکھیں گے
کسی نہ کسی بات پر
ہم روئیں گے اور اپنے رونے پر
ہم ہنسیں گے
آج محبت کا جنم دن ہے
آج ہم ہر درخت کے سامنے سے
گزرتے ہوئے
ٹوپی اتار کر اسے سلام کریں گے
ہر بادل کو دیکھ کے
ہاتھ ہلائیں گے
ہر ستارے کا شکریہ ادا کریں گے
ہمارے آنسوؤں نے
ہمارے ہتھیلیوں کو چھلنی کر دیا ہے
آج ہم اپنے دونوں ہاتھ
جیبوں میں ڈال کر چلیں گے
اور اگلے برس تک چلتے رہیں گے
آج ہم اداسی کی چھری سے
اپنے دل کو کاٹیں گے
آج ہم اپنی پلکوں پر
جلتی ہوئی موم بتی رکھ کے
ایک تار پر سے گزریں گے
ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا
مگر ہم ہر بند کھڑکی کی طرف
دیکھیں گے
ہر دروازے کے سامنے پھول رکھیں گے
کسی نہ کسی بات پر
ہم روئیں گے اور اپنے رونے پر
ہم ہنسیں گے
آج محبت کا جنم دن ہے
آج ہم ہر درخت کے سامنے سے
گزرتے ہوئے
ٹوپی اتار کر اسے سلام کریں گے
ہر بادل کو دیکھ کے
ہاتھ ہلائیں گے
ہر ستارے کا شکریہ ادا کریں گے
ہمارے آنسوؤں نے
ہمارے ہتھیلیوں کو چھلنی کر دیا ہے
آج ہم اپنے دونوں ہاتھ
جیبوں میں ڈال کر چلیں گے
اور اگلے برس تک چلتے رہیں گے
مصدق رفیق
ویلنٹائن ڈے آؤ آج
دھوپ میں کھڑے ہو کر
درختوں کو دعائیں دیں
جن کے پاس ہمارے حصے کی تھکن ہے
آؤ آج
خشک دریا میں کھڑے ہو کر
پانی کو آواز دیں
آؤ آج
پھولوں کا رنگ اوڑھ کر
آوارگی کریں
اور تکتے رہیں آسمان کو
جہاں ہر شام اک نئی پینٹینگ سجی ہوتی ہے
آؤ آج
پرندوں کو آسمان
اور محبوباؤں کو پیش کریں
سرخ فیتے سے بندھے دل
دھوپ میں کھڑے ہو کر
درختوں کو دعائیں دیں
جن کے پاس ہمارے حصے کی تھکن ہے
آؤ آج
خشک دریا میں کھڑے ہو کر
پانی کو آواز دیں
آؤ آج
پھولوں کا رنگ اوڑھ کر
آوارگی کریں
اور تکتے رہیں آسمان کو
جہاں ہر شام اک نئی پینٹینگ سجی ہوتی ہے
آؤ آج
پرندوں کو آسمان
اور محبوباؤں کو پیش کریں
سرخ فیتے سے بندھے دل
مصدق رفیق
ایک دن منایا جانا چاہیے ایک دن منایا جانا چاہیے
میرا بھی
سانس کی بے آواز لہروں پر
تیرتی زندگی کے ساتھ
بے نشان ساحلوں پر
بکھری سیپیوں کے ہم راہ
سرد موسموں میں
کوچ کر جانے والے پرندوں کے سنگ
انجان سر زمینوں پر
کسی ان دیکھے رنگ کے
پھول کی پتیوں سے پھوٹتی
پر اسرار خوشبو کے بازووں میں
تم مناتے ہو مدر ڈے
اور حصار میں رہتے ہو
مامتا کے نور کے
تم مناتے ہو فادر ڈے
اور گھنے درختوں کی چھاؤں
محسوس کرتے ہو
تم مناتے ہو ویلنٹائن ڈے
اور اپنی محبوبہ کے سامنے
سرخ رو ٹھہرتے ہو
تمہارا دل طواف کرتا رہتا ہے
بے پایاں محبتوں کا
اور تم محبت کا ہر دن مناتے ہو
دکانیں سج جاتی ہیں
رنگ برنگے پھولوں سے
چاکلیٹ اور کیک کی مٹھاس سے
قیمتیں مختلف سہی
مگر اظہار کی سکت
تمہاری قوت خرید میں رہتی ہے
میں تمہارے باپ کی محبت کا
ہر رنگ
ہر ذائقہ جانتی ہوں
ایک دن منایا جانا چاہیے
میرا بھی
مجھے معلوم ہے
تم یہ دن منا سکتے ہو
مگر یہ دن
سارے دنوں میں سرایت کر گیا ہے
تم اسے نہیں ڈھونڈ سکتے
کوئی ایک دن مختص بھی کر دو
تو اس کا عنوان
تمہارے اظہار کی سکت سے باہر ہے
میرا بھی
سانس کی بے آواز لہروں پر
تیرتی زندگی کے ساتھ
بے نشان ساحلوں پر
بکھری سیپیوں کے ہم راہ
سرد موسموں میں
کوچ کر جانے والے پرندوں کے سنگ
انجان سر زمینوں پر
کسی ان دیکھے رنگ کے
پھول کی پتیوں سے پھوٹتی
پر اسرار خوشبو کے بازووں میں
تم مناتے ہو مدر ڈے
اور حصار میں رہتے ہو
مامتا کے نور کے
تم مناتے ہو فادر ڈے
اور گھنے درختوں کی چھاؤں
محسوس کرتے ہو
تم مناتے ہو ویلنٹائن ڈے
اور اپنی محبوبہ کے سامنے
سرخ رو ٹھہرتے ہو
تمہارا دل طواف کرتا رہتا ہے
بے پایاں محبتوں کا
اور تم محبت کا ہر دن مناتے ہو
دکانیں سج جاتی ہیں
رنگ برنگے پھولوں سے
چاکلیٹ اور کیک کی مٹھاس سے
قیمتیں مختلف سہی
مگر اظہار کی سکت
تمہاری قوت خرید میں رہتی ہے
میں تمہارے باپ کی محبت کا
ہر رنگ
ہر ذائقہ جانتی ہوں
ایک دن منایا جانا چاہیے
میرا بھی
مجھے معلوم ہے
تم یہ دن منا سکتے ہو
مگر یہ دن
سارے دنوں میں سرایت کر گیا ہے
تم اسے نہیں ڈھونڈ سکتے
کوئی ایک دن مختص بھی کر دو
تو اس کا عنوان
تمہارے اظہار کی سکت سے باہر ہے
مصدق رفیق
تری مہک نے ہی تیرا پتہ دیا ہے مجھے تری مہک نے ہی تیرا پتہ دیا ہے مجھے
خدا کا شکر کہ تجھ سے ملا دیا ہے مجھے
میں ایک تیر تھا اس کی کمان میں رکھا
اور اس نے یوں ہی ہوا میں چلا دیا ہے مجھے
کسی نے آنکھیں سجائی تھیں میرے چہرے پر
کسی کا خواب تھا لیکن دکھا دیا ہے مجھے
طویل رات تھی اس کو سلا کے سویا تھا
اور اس نے خواب میں جا کر جگا دیا ہے مجھے
تو اس کی آنکھ میں آنسو ہیں کس لئے آربؔ
وہ کہہ رہا تھا کہ یکسر بھلا دیا ہے مجھے
خدا کا شکر کہ تجھ سے ملا دیا ہے مجھے
میں ایک تیر تھا اس کی کمان میں رکھا
اور اس نے یوں ہی ہوا میں چلا دیا ہے مجھے
کسی نے آنکھیں سجائی تھیں میرے چہرے پر
کسی کا خواب تھا لیکن دکھا دیا ہے مجھے
طویل رات تھی اس کو سلا کے سویا تھا
اور اس نے خواب میں جا کر جگا دیا ہے مجھے
تو اس کی آنکھ میں آنسو ہیں کس لئے آربؔ
وہ کہہ رہا تھا کہ یکسر بھلا دیا ہے مجھے
فیض
کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں
کیسی دیوار اٹھاتے ہیں گرا دیتے ہیں
آؤ دو چار قدم چل کے بھی دیکھیں یارو
ہم سفر اپنے کہاں ہم کو دغا دیتے ہیں
جانے کیا سوچ کے اے دوست یہ ارباب چمن
زہر پاشی سے وہ پودوں کو جلا دیتے ہیں
یہ گزر گاہ کے پتھر تری ٹھوکر میں سہی
ہر قدم پر تجھے منزل کا پتا دیتے ہیں
یہ وہ دنیا ہے جہاں جھوٹ چھپانے کے لئے
لوگ سچائی کو سولی پہ چڑھا دیتے ہیں
جب بھی آتے ہیں اسے چھو کے ہوا کے جھونکے
دل کے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتے ہیں
دور و نزدیک یہ سناٹوں کے گہرے سائے
آنے والے کسی طوفاں کا پتہ دیتے ہیں
کیسی دیوار اٹھاتے ہیں گرا دیتے ہیں
آؤ دو چار قدم چل کے بھی دیکھیں یارو
ہم سفر اپنے کہاں ہم کو دغا دیتے ہیں
جانے کیا سوچ کے اے دوست یہ ارباب چمن
زہر پاشی سے وہ پودوں کو جلا دیتے ہیں
یہ گزر گاہ کے پتھر تری ٹھوکر میں سہی
ہر قدم پر تجھے منزل کا پتا دیتے ہیں
یہ وہ دنیا ہے جہاں جھوٹ چھپانے کے لئے
لوگ سچائی کو سولی پہ چڑھا دیتے ہیں
جب بھی آتے ہیں اسے چھو کے ہوا کے جھونکے
دل کے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتے ہیں
دور و نزدیک یہ سناٹوں کے گہرے سائے
آنے والے کسی طوفاں کا پتہ دیتے ہیں
اسرار






