کبھی راہِ طلب میں دل کو آسانی نہیں ہوتی
جنہیں اپنی گناہوں پر پشیمانی نہیں ہوتی
ہزاروں بجلیاں ٹوٹے شبِ اسریٰ نشیمن پر
مجھے اب حال پر اس کے حیرانی نہیں ہوتی
کسی مفلس کے کاسے سے نیوالا چھیننے والے
بجھے دل پر کبھی صاحب کی سلطانی نہیں ہوتی
اگرچہ لاکھ لے آوں ستارے اپنی چوکھٹ پر
مگر پھر بھی میرے گھر ميں تابانی نہیں ہوتی
کوئی تو راز ہے آخر چھپائے جا رہا مجھ سے
وگرنہ عشق میں اتنی بھی نادانی نہیں ہوتی
اگر ممکن ہو گلشن کے اصولِ ارتقا بدلو
اکیلے خار سے گل کی نگہبانی نہیں ہوتی