کبھی شفق تو کبھی گل کبھی جناں مہکے
تمہارے نقش قدم بھی کہاں کہاں مہکے
کوئی امین صداقت ادھر سے گزرا ہے
قدم قدم پہ جو یوں راہ امتحاں مہکے
یہ کس کے نام کی خوشبو ہے میرے شعروں میں
نفس نفس ہے معطر مشام جاں مہکے
چمن بدوش وہ آئے مرے تصور میں
مرے خیال و معانی کا کل جہاں مہکے
یہ کس نے رخت سفر باندھنے کی ٹھانی ہے
زمین وجد میں ہے اور آسماں مہکے
جنہوں نے راہ صداقت میں اپنی جانیں دیں
پڑھو جو داستاں ان کی تو داستاں مہکے