کبھی چراغ کبھی راستہ بدل کر دیکھ
بہت قریب ہے منزل ذرا سا چل کر دیکھ
ترے حصار سے باہر نہیں زمان و مکاں
تو میری طرح کسی آئنے میں ڈھل کر دیکھ
فقیر بن کے وہ آیا ہے تیری چوکھٹ پر
یہ کوئی اور نہیں ہے ذرا سنبھل کر دیکھ
نگار خانۂ گردوں کو راکھ کرتے ہوئے
ذرا سی دیر کسی طاقچے میں جل کر دیکھ
زمین تنگ ہوئی جا رہی ہے لوگوں پر
حدود قریۂ جاں سے کبھی نکل کر دیکھ
رواں دواں ہیں کسی سمت میں کہ ساکت ہیں
پھر ایک بار ستاروں کی آنکھ مل کر دیکھ
عجیب لطف ہے ترک نشاط میں ساجدؔ
جو ہو سکے تو مری بات پر عمل کر دیکھ