کبھی کبھی یاد میں ابھرتے ہیں نقش ماضی مٹے مٹے سے

Poet: فیض احمد فیض By: Zaid, Islamabad
Kabhi Kabhi Yaad Mein Ubharte Hain Naqsh Mazi Mite Mite Se

کبھی کبھی یاد میں ابھرتے ہیں نقش ماضی مٹے مٹے سے
وہ آزمائش دل و نظر کی وہ قربتیں سی وہ فاصلے سے

کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں آ کے رکتے ہیں قافلے سے
وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی وہ سارے عنواں وصال کے سے

نگاہ و دل کو قرار کیسا نشاط و غم میں کمی کہاں کی
وہ جب ملے ہیں تو ان سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے

بہت گراں ہے یہ عیش تنہا کہیں سبک تر کہیں گوارا
وہ درد پنہاں کہ ساری دنیا رفیق تھی جس کے واسطے سے

تمہیں کہو رند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا
یہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے

Rate it:
Views: 2225
19 Jun, 2021
More Faiz Ahmed Faiz Poetry