ہماری جنبش لب پر دنیا کان لگاتی تھی
آج سنتا نہیں کوئی جو ہم چیختے چلاتے ہیں
جس سمت بھی گئے ہم نے سکے بٹھا دیے تھے
آج رخ جدھر کا کریں تیر ملامتی ہم پر چلتے ہیں
کہاں بھول ہوئی کہاں کر بیٹھے ہیں ہم خطا
آؤ عثمان ورق کتاب ماضی کا آج پلٹتے ہیں
شائد سدھار لیں صدیوں کی اپنی خطا ہم
اور پا لیں دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار ہم