کتنی شرمیلی لجیلی ہے ہوا برسات کی
Poet: نذیر بنارسی By: ہارون فضیل, Islamabadکتنی شرمیلی لجیلی ہے ہوا برسات کی
ملتی ہے ان کی ادا سے ہر ادا برسات کی
جانے کس مہیوال سے آتی ہے ملنے کے لیے
سوہنی گاتی ہوئی سوندھی ہوا برسات کی
اس کے گھر بھی تجھ کو آنا چاہئے تھا اے بہار
جس نے سب کے واسطے مانگی دعا برسات کی
اب کی بارش میں نہ رہ جائے کسی کے دل میں میل
سب کی گگری دھو کے بھر دے اے گھٹا برسات کی
دیکھیے کچھ ایسے بھی بیمار ہیں برسات کے
بوتلوں میں لے کے نکلے ہیں دوا برسات کی
جیب اپنی دیکھ کر موسم سے یاری کیجئے
اب کی مہنگی ہے بہت آب و ہوا برسات کی
بادلوں کی گھن گرج کو سن کے بچے کی طرح
چونک چونک اٹھتی ہے رہ رہ کر فضا برسات کی
راستے میں تم اگر بھیگے تو خفگی مجھ پہ کیوں
میرے منصف پہ خطا میری ہے یا برسات کی
ہم تو بارش میں کھلی چھت پر نہ سوئیں گے نذیرؔ
آپ تنہا اپنے سر لیجے بلا برسات کی
More Rain/Barish Poetry
سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
حمزہ
چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل
علی






