کتنی شرمیلی لجیلی ہے ہوا برسات کی
ملتی ہے ان کی ادا سے ہر ادا برسات کی
جانے کس مہیوال سے آتی ہے ملنے کے لیے
سوہنی گاتی ہوئی سوندھی ہوا برسات کی
اس کے گھر بھی تجھ کو آنا چاہئے تھا اے بہار
جس نے سب کے واسطے مانگی دعا برسات کی
اب کی بارش میں نہ رہ جائے کسی کے دل میں میل
سب کی گگری دھو کے بھر دے اے گھٹا برسات کی
دیکھیے کچھ ایسے بھی بیمار ہیں برسات کے
بوتلوں میں لے کے نکلے ہیں دوا برسات کی
جیب اپنی دیکھ کر موسم سے یاری کیجئے
اب کی مہنگی ہے بہت آب و ہوا برسات کی
بادلوں کی گھن گرج کو سن کے بچے کی طرح
چونک چونک اٹھتی ہے رہ رہ کر فضا برسات کی
راستے میں تم اگر بھیگے تو خفگی مجھ پہ کیوں
میرے منصف پہ خطا میری ہے یا برسات کی
ہم تو بارش میں کھلی چھت پر نہ سوئیں گے نذیرؔ
آپ تنہا اپنے سر لیجے بلا برسات کی