تم کیا جانو کہ کربلا کیا ہے
نہ ہی آہ ہے، نہ ہی بکاہ ہے
نہ ہی ماتم ہے رشتوں سے جدائی کا
نہ ہی فسوں ہے کسی لڑائی کا
کیا تیروں کا، شہیدوں کا فسانہ ہے
کیا زور بازو آزمانا ہے
کربلا ہے بھلا
روشنی کا سلسلہ
یہ ماتم نہیں ترانہ ہے
شجاعت کا صداقت کا
ہاں یہ سنانا ہے
عشق کرنے والے تو یونہی وفا کرتے ہیں
محبت کا تعویز باندھے
شمشیر پہ جو چڑھتے ہیں
نہ موت سے خوف آئے
نہ زندگی پہ وہ مرتے ہیں
کلمے کی پوشاک ہے
دل مادیت سے پاک ہے
دشمن کیا جانے کہ اب بلا کیا ہے
ہاں تم کیا جانو کہ کربلا کیا ہے