کربلا
کربلا نام ہے عزیمت کا
کربلا نام ہے حریت کا
گھر لٹا کر ابن حیدر نے
خاتمہ کر دیا شقاوت کا
قربانی
نہیں تمہید کوئی طولانی
دینے اکبر کی آئے قربانی
گھر گئے کربلا میں یوں شبیر
آل مرسل پہ بند تھا پانی
ابن حیدرکا استقلال
کربلا صبر کی اک مثال بھی ہے
کربلا حسنی حسینی جلال بھی ہے
جبر کے بے اماں تلاطم میں
یہ ابن حیدر کا استقلال بھی ہے
کاروان زیست
زیست کا کارواں حسین سے ہے
میرا دل اور جاں حسین سے ہے
صدقہ زینب کی پاک چادر کا
عصمتوں کی اماں حسین سے ہے
فرات
جاہ و حشمت کا اضطراب فرات
صبرکا اک عظیم باب حسین
خون رگ رسول کا یہ ثمرملا
کر گیا تجھ کو باریاب فرات
اللہ کی رضا
رب اکبر کی ہر رضا کے لیے
زیست کی وقف اک دعا کے لیے
مسکراتا چمن لٹا کے شبیر
پیکر صبر تھے عطا کے لیے