بے بسی کے شور میں ستمگری ہے امتحاں
دل خراش ہے فضا اور آنسوؤں کا ہے آسماں
بارود کی اس مہک میں سب کلیاں مرجھا گئیں
درو دیوار مخدوش ہیں لرز رہے ہیں سب مکاں
خون کا سیلاب ہے سسکیوں کی رات میں
ہے عذاب زندگی اور راستے ہیں سب ویراں
اچھالتے ہیں جسموں کو خنجروں کی نوک پہ
آنکھوں میں اب خوف ہے گنگ ہوئی ہے زباں
بکھرے پتوں کی طرح انسانیت کے لاشے ہیں
آدمیت کے ان ٹکڑوں میں ہے کربلا کی داستاں