کعبے کے نگہبانوں کو کعبے سے ہٹادو
کافر کی ہے کوشش مسلمان کو مٹا دو
ایمان ابراہیم کا دُنیا کو دیکھا دو
بھڑکی ہوئی ہر آتش نمرود بجھا دو
ذروں کو فلک بوس پہاڑوں سے لڑا دو
محلوں کے منقش درو دیوار گرادو
کرنا ہے اگر چاند ستاروں کو مسخر
شمشیر مسلمان کے ہاتھوں میں تھما دو
اقبال کا شاہین کبھی پرواز سے تھک کر
گنبد پہ کسی قصر کے بیٹھے تو اڑا دو
مسکن ہے تیرا اونچے پہاڑوں کی چٹانیں
اس طائر ناداں کو یہ یاد دلا دو
ہوتا ہے اثر ان کی دعاوں میں یقیناً
نمازی سے دعالو کبھی غازی کو دُعا دو
نسیم کی طرح جنگ کے میدان میں اترو
اماں سے کہو! مجھ کو شہادت کی دُعا دو