کسی احساس میں پہلی سی اب شدت نہیں ہوتی
کہ اب تو دل کے سناٹے سے بھی وحشت نہیں ہوتی
زمانے بھر کے غم اپنا لئے ہیں خود فریبی میں
خود اپنے غم سے ملنے کی ہمیں فرصت نہیں ہوتی
گزر جاتی ہے ساری زندگی جن کے تعاقب میں
بگولے ہیں کسی بھی خواب کی صورت نہیں ہوتی
قسم کھائی ہے ہم نے بارہا خاموش رہنے کی
مگر گھٹ گھٹ کے رہنے کی ابھی عادت نہیں ہوتی
اسے میں آگہی کا فیض سمجھوں یا سزا سمجھوں
ہمیں دنیا کی نیرنگی پہ اب حیرت نہیں ہوتی
جہاں پر مکر و فن آداب محفل بن کے چھایا ہو
ہمیں ایسی کسی محفل سے کچھ نسبت نہیں ہوتی
ہزاروں ان کہی باتیں جنہیں لکھنے کو جی چاہے
کبھی ہمت نہیں ہوتی کبھی فرصت نہیں ہوتی