کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہو کا نکلا
اب کے موسم میں بھی عالم وہی ہو کا نکلا
دست قاتل سے کچھ امید شفا تھی لیکن
نوک خنجر سے بھی کانٹا نہ گلو کا نکلا
عشق الزام لگاتا تھا ہوس پر کیا کیا
یہ منافق بھی ترے وصل کا بھوکا نکلا
جی نہیں چاہتا مے خانے کو جائیں جب سے
شیخ بھی بزم نشیں اہل سبو کا نکلا
دل کو ہم چھوڑ کے دنیا کی طرف آئے تھے
یہ شبستاں بھی اسی غالیہ مو کا نکلا
ہم عبث سوزن و رشتہ لیے گلیوں میں پھرے
کسی دل میں نہ کوئی کام رفو کا نکلا
یار بے فیض سے کیوں ہم کو توقع تھی فرازؔ
جو نہ اپنا نہ ہمارا نہ عدو کا نکلا