کسی کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر ہی تو جینا ہے
ملے مَغمُوم نہ کوئی اسی کا دم ہی بھرنا ہے
کسی کا دل دٌکھانا جان پر یہ بن ہی آجائے
کسی کے درد سے بے درد نہ جیون یہ رہنا ہے
یہ دولت اور عہدوں سے نہ کوئی بھی بڑا ہوتا
مگر انسانیت سے تو بلندی طے ہی کرنا ہے
ہمیشہ با ادب رہنے میں ہی اپنی بھلائی ہے
جو کوئی بے ادب ہو تو اسے ذلت میں پلنا ہے
کسی کا بھی زیاں نہ ہو یہی لازم بنانا ہے
کسی مظلوم کی تو آہ سے بالکل ہی بچنا ہے
زمیں تو عقلمندوں سے اثر بھرتی ہی جاتی ہے
اسے تو درد مندوں سے ہمیشہ پُر ہی رکھنا ہے