ناگ دھرم سے ناطہ تھا اُس کا
پھن بدل لیتا تھا بنسی کے ساتھ
کمال کہہ لیں یا سحر کہہ لیجیئے اس کا
پل بھر میں مل جاتا تھا ہر کسی کے ساتھ
دیکھا اُسے جو کسی اجنبی کی بانہوں میں
اشک بھی رواں ہو گے میرے ہنسی کے ساتھ
یُوں شکایٔتیں کچھ سود مند نہ رہیگی اس سے
سی لیے لب بھی اس لیے بڑی خوشی کے ساتھ
حسرت ہی رہی تیری کہ یُوں ہوتا تو اچھا ہوتا زیّب
وہ میرا نہیں ہوا تو رہتا نہ وہ بھی کسی کے ساتھ