کم از کم کچھ نہیں تو زخم سینا آ گیا ہے
اکھٹے جی رہے ہیں جب سے جینا آگیا ہے
مذاقاَ پڑھ رہے تھے ہجر کے نقصان دونوں
دسمبر میں بھی ماتھوں پر پسینہ آگیا ہے
مدد درکار تھی مجھ کو کہ ڈوبا جا رہا تھا
بھنور آیا تو میں سمجھا سفینہ آ گیا ہے
ترے منہ پھیرنے سے پھر گیا ہر شخص کا منہ
قبیلے کی سبھی آنکھوں میں کینہ آگیا ہے
وہ پوٹھوہار کی آنکھیں ہمہ تن کھینچتی ہیں
جہاں گاڑی رکے لگتا ہے ,, دینہ ,, آگیا ہے
خرد جیسی کوئی بھی شے نہیں پہنچی مرے شہر
جنوں ہر شخص تک سینہ بہ سینہ آ گیا ہے
ہیں جیسے لوگ ہم , ہم نے چنا ویسا ہی اک شخص
نیا حاکم کوئی جاہل کمینہ آ گیا ہے
سبھی روتے محبت کر رہے ہیں زندگی دیکھ
ہمیں ہنستے ہوئے یہ زہر پینا آگیا ہے
خدایا نیند ایسی بھی کوئی مجھ کو سلا دے
کھلے جب آنکھ تو دیکھوں مدینہ آ گیا ہے