کوئی انیسؔ کوئی آشنا نہیں رکھتے
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
فقیر دوست جو ہو ہم کو سرفراز کرے
کچھ اور فرش بجز بوریا نہیں رکھتے
مسافرو شب اول بہت ہے تیرہ و تار
چراغ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے
وہ لوگ کون سے ہیں اے خدائے کون و مکاں
سخن سے کان کو جو آشنا نہیں رکھتے
مسافران عدم کا پتہ ملے کیونکر
وہ یوں گئے کہ کہیں نقش پا نہیں رکھتے
تپ دروں غم فرقت ورم پیادہ روی
مرض تو اتنے ہیں اور کچھ دوا نہیں رکھتے
کھلے گا حال انہیں جب کہ آنکھ بند ہوئی
جو لوگ الفت مشکل کشا نہیں رکھتے
جہاں کی لذت و خواہش سے ہے بشر کا خمیر
وہ کون ہیں کہ جو حرص و ہوا نہیں رکھتے
انیسؔ بیچ کے جاں اپنی ہند سے نکلو
جو توشۂ سفر کربلا نہیں رکھتے