کوئی ذوق نظر ہونے لگا ہے
بہت آساں سفر ہونے لگا ہے
کہاں سے لاؤ گے تم ماں کی ممتا
اگر پردیس گھر ہونے لگا ہے
سنبھالو اب تو اس بیمار کو تم
فسانہ مختصر ہونے لگا ہے
مرے الفاظ ضو دینے لگے ہیں
غزل کہنا ہنر ہونے لگا ہے
وہ پہلے ٹس سے مس ہوتا نہیں تھا
اگر سے اب مگر ہونے لگا ہے
لبوں پر اب ہے اس کے مسکراہٹ
دعاؤں کا اثر ہونے لگا ہے
چلو جاذبؔ بچا کر اپنا دامن
وہ رستہ رہ گزر ہونے لگا ہے