کوئی شب بھی گزری ایسی نہ ہوئی سَحَر ہو جس کی
یہ گھٹا جو غم کی چھائی تو نہ جاودانی اِس کی
جو کسی کا دکھ نہ سمجھے نہ کسی کے غم سے مطلب
تو عبث ہے جینا اس کا نہ تو قدر اس بے حِس کی
یہ جو زندگی ہے اپنی ہو کسی کے درد سے پُر
کبھی مل بھی جائے بے کس تو نظر ہو بس تَرَس کی
کرے جو ستم کسی پر نہ ہو مطمئن کبھی بھی
تو صلہ ملے اسے بھی اسی زندگی میں اُس کی
جو خلوص ہو عمل میں ہو عمل کا وزن بھاری
نہ خلوص ہو عمل میں تو نہ نیکی اس کے بَس کی
یہ ہے آرزو اثر کی یہ ہے جستجو بھی اس کی
کہ نَفَس ہو اس کا ایسا ہو ہی ہُو کی خو نَفَس کی