دل میں اُٹّھا طوفانِ غم کوئے نبی کے ارمانوں کا
اب تو بلالیں ہم کو طیبہ دُور ہو غم دیوانوں کا
اللہ اللہ! شہرِ مدینہ جس کے چپّے چپّے پر
جان نچھاور کرتے ہیں سب کیا کہنا مستانوں کا
نعرہ لگایا سرورِ عالم نے وحدت کا جب لوگو!
اوندھے منہ بُت گرنے لگے تھا حال بُرا بُت خانوں کا
رنج والم کے بحرِبَلا میں ، جب کشتی میری پھنسی
جوں ہی اُن کو پکارا فوراً رُخ پلٹا طوفانوں کا
کام مُشاہدؔ کابن جاے ، نام مُشاہدؔ کابھی آے
محشر میں جب ذکر ہو آقا آپ کے مدحت خوانوں کا