اے کاش کہ ہو ہر صبح و مسا کونین کے سرور کی باتیں
ہو خُلقِ مُعظّم کا چرچا اور سیرتِ اطہر کی باتیں
رحمت کی گھٹا چھا جاتی ہے ، چھٹ جاتے ہیں ظلمت کے بادل
جب ذہن و دل میں اُٹھتی ہیں روضے کے تصوّر کی باتیں
جب شامِ غم میں اے لوگو! انوارِ مسرّت لانا ہو
ہو زُلفِ معنبر کا چرچا ، اور روئے منوّر کی باتیں
ہاں امن کے دشمن تم ہی ہو الزام ہمیں دیتے ہو مگر
آکر کے ذرا تم دیکھ تو لو اَخلاقِ پیمبر کی باتیں
ہو جائیں گے زُعما عالم کے ، نظروں میں تمہاری ماند اگر
پڑھ لوگے جو قرآں دل سے اور سیرتِ انور کی باتیں
جب اُن کے لب ہاے مبارک پر ، سلِّم اور اِنیّ لہا ہوگا
گھبراے مُشاہدؔ کیسے بھلا ، سُن سُن کے محشر کی باتیں
٭