جو جان و دل سے رکھتے ہیں سرکار کو عزیز
ہوتے ہیں وہ ہی حضرتِ غفّار کو عزیز
سب کو رضاے خالقِ کونین سے غرَض
لیکن خوشی ہے آپ کی ستّار کو عزیز
اللہ کو پسند ہیں بے شک وہی بشر
رکھتے ہیں حق کی خاطر جو دار کو عزیز
’’قرآن کھا رہا ہے اُسی خاک کی قسم‘‘
رکھتا ہے حق بھی کوچۂ انوار کو عزیز
اُن کو گلِ جناں کی طلب کیا ستاے گی
رکھتے ہیں جو کہ طیبہ کے ہر خار کو عزیز
مجھ کو غرَض نہیں ہے زر و سیٖم و مال کی
رکھتا ہوں نعلِ احمدِ مُختار کو عزیز
ہے التماسِ خستہ مُشاہدؔ شہِ انام
رکّھے ہمیشہ آپ کے دربار کو عزیز