کچھ بھی تو اپنے پاس نہیں جز متاع دل
کیا اس سے بڑھ کے اور بھی کوئی ہے امتحاں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لکھی نہ جا سکی مگر اپنی ہی داستاں
دل سے دماغ و حلقۂ عرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں
اس بے وفا پہ بس نہیں چلتا تو کیا ہوا
اڑتی رہیں گی اپنے گریباں کی دھجیاں
ہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں